جو بیج انسان دنیا میں بوتا ہے اس کا ثمر زندگی میں ہی ملتا ہے۔ نیکیوں کے بیج بونے سے راحتیں، خوشیاں ملتی ہیں‘ بدی کا بیج بونے سے بے سکونی و اضطراب ملتا ہے۔ یہ دنیا تو مکافات عمل ہے جیسا کروگے ویسا بھروگے۔ انسان اگر رب کی منشاء پر توکل رکھے تو اس کے اندر سکون ٹھہرتا ہے وگرنہ نفسانی خواہشات کو دل میں پال کر بے چین پھرتا ہے ۔ سکون جب اندر نہ ہو تو کہیں نہیں ملتا۔’’سکون تو بس اللہ کے ذکر و اذکار اور یاد میں ہی ملتا ہے۔قارئین ! میں کوئی لکھاری تو نہیں ہوں لیکن اچھا ادب پڑھنے کی شوقین ہوں۔ عبقری 2009ء سے پڑھ رہی ہوں۔بے شمار ایسے واقعات پڑھے جو عبرت کا مقام ہوتے ہیں ان واقعات سے روگردانی نہیں کی جاسکتی۔ یہ تو اللہ سبحان وتعالیٰ کی ذات گرامی ہے جس کو اچھی بات سمجھنے کی توفیق دے ۔ آج میرا بھی دل چاہا کہ کچھ لکھا جائے جس سے دوسروں کو زندگی کا کچھ سبق ملے۔
ذہین ‘ہمدرد اور خوش شکل لڑکی کی کہانی
ہمارے ملنے والوں میں ایک بہت اچھی مہذب،خوش شکل، سلیقہ مند اور اعلی تعلیم یافتہ خاتون ہیں۔ میرا اکثر ان کےگھر آنا جانا ہوتا ہے۔ گھر میں صرف میاں بیوی ہیں‘ اولاد نہیں ہے۔ میں جب بھی ان سے ملی تو محسوس ہوا کہ میاں بیوی کے رشتے میں سرد مہری ہے۔ کوئی محبت، پیار کا تعلق نہیں جیسے کوئی مرد صرف اپنی روزمرہ ضروریات کیلئے کسی کو نوکری پر رکھتا ہے۔ لگی بندھی وہی روٹین، خاتون کی الگ مصروفیات، شوہر کی الگ۔ حتیٰ کہ کمرے بھی علیحدہ علیحدہ۔ ایک دن میں نے ہمت کرکے ان خاتون سے پوچھ ہی لیا کہ کیا وجہ ہے۔ آپ کے تعلقات میں سرد مہری نظرآتی ہے۔ میاں بیوی والی کوئی بات نظر نہیں آتی حتیٰ کہ کمرے تک علیحدہ ہیں۔ کافی اصرار کے بعدان خاتون نے اپنی کہانی سنائی۔’’جب میںنوجوان لڑکی تھی تو بہت خوبصورت ، لائق، ذہین، ہمدرد، سادہ سی تھی۔ مخلوط تعلیمی ادارے میں پڑھتی تھی۔میرے اندر چالاکی، تیز طراری نہیں تھی بلکہ نا سمجھ تھی‘ ہر کسی پر اعتبار کرلیتی تھی۔ پڑھائی میں ہمیشہ اول دوئم پوزیشن ہولڈر رہی ۔ سلائی ، کڑھائی، ہنر مندی میں بھی کافی اچھی تھی۔میں دوسروں پر بھروسہ اور اعتماد کرلیتی تھی۔
کاش مجھے کوئی سمجھانے والاہوتا
کوئی سمجھانے بتانےوالا نہیں تھا کہ لڑکی کی عزت کیا ہوتی ہے۔اس لیے جس لڑکے نے بھی اظہار محبت کیا اس پر یقین کرلیا۔ لیکن کچھ عرصے کے بعد اس لڑکے کی محبت میں چھپی نفسانی خواہش ظاہر ہوجاتی تو میں خود بخود پیچھے ہٹ جاتی۔ اس طرح کئی مرتبہ ہوا۔ اچھے اور آئیڈیل شوہر کی تلاش میں میں نے کئی بار اعتبار کھویا۔میں تو ناسمجھ، معصوم، سادہ تھی اعتبار کرتی گئی۔ لیکن جو نوجوان لڑکے، لڑکیاں جان بوجھ کر فلرٹ کرتے ہیں ایک دوسرے کو دھوکہ دیتےہیں، لباس، فیشن کی طرح ساتھی بدلتے ہیں ۔ وہ خدا کی لاٹھی کو بھول جاتے ہیں مکافات عمل بھول جاتے ہیں۔ جوانی کے نشے میں سرشار، محبت کو تفریح کی طرح لیتے ہیں۔ وہ نہیں سوچتے کہ جیسا بیج ہم بو رہے ہیں ویسا ہی پھل اس دنیا میں ہی کھائیں گے۔ سب سے بڑی وجہ دین سےلاتعلقی بھی ہے۔بیانات میں ،مذہبی محفلوں میں، نماز، روزے، زکوٰۃ خیرات، اسلام کے ہر موضوع پر گفتگو کی جاتی ہے لیکن عورت اور مرد کے درمیان تعلق پر بات نہیں کی جاتی۔
ناسمجھی کے گناہ کا خمیازہ آج تک بھگت رہی
شاید ہمارا معاشرہ اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے گھبراتا ہے۔ اسے بےحیائی و بے شرمی شمار کرتا ہے۔ دوسرے موضوعات پر تو دل کھول کر لیکچر دیئے جاتے ہیں لیکن ’’تعلقات‘‘ پر بات نہیں کی جاتی۔ اب میں اپنی طرف آتی ہوں۔ حالانکہ میں مذہبی بھی تھی ، نماز، روزے کی پابند بھی تھی لیکن ناسمجھی میں گناہ سرزرد ہوا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس کا اتنا سخت خمیازہ بھگتنا پڑےگا۔ اس طرح تعلیمی مراحل کے بعد نوکری بھی کی۔ پھر اپنی اماں نہ ہونے کی وجہ سے شادی میں بھی تاخیر ہوئی۔ ماں تو بیٹی کی بہترین محافظ ہوتی ہے وہی اس کا بہتر سوچ سکتی ہے۔ کوئی دوسری عورت نہیں۔ پھر تاخیر سے شادی کسی کے توسط سے ہوئی۔ دور، اجنبی لوگوں میں رشتہ طے ہونے کی وجہ سے لڑکے کے مزاج، عادات و اطوار کا معلوم نہ ہوسکا۔ بہرحال شادی کے بعد بھید آہستہ آہستہ کھلنے لگے کہ موصوف شوہر صاحب پہلے سے شادی شدہ ہیں اور دوعورتوںکو طلاق دے چکے ہیں۔ کوئی بھی عورت ان کی سخت مزاجی، بدمزاجی، شکی اور وہمی طبیعت کی وجہ سے نہیں رہ سکی۔ حالانکہ موصوف اعلیٰ تعلیم یافتہ ، خاندانی، معاشی طور پر مستحکم تھے۔میری ذات پر ان کی شخصیت کے بھید کھلتے گئے ۔ میں جوکہ نہایت نرم مزاج، ہمدرد، سلیقہ مند، وفا شعار بیوی تھی لیکن ان کی سخت مزاجی، شکی پن، وہم اوربدمزاجی نےمیری ذات کو ریزہ ریزہ کردیا ۔ کوئی دن نہ گیا ہوگا جب میں نہ روئی ہوں گی۔ موصوف ہر کسی کے سامنے بے عزتی کردیتے تھے۔ حتیٰ کہ خاندان کے بچوں کے سامنے ۔
ماضی کے گناہ مکافات بن کر سامنے آ گئے
میں نے کئی دفعہ اس ماحول سے نکلنے کی کوشش کی لیکن پیچھے سہارا دینے والا کوئی نہ تھا کس کے آسرے پر واپسی کا سفر کرتی۔اولاد سے بھی محروم رہی۔ یہی تمام سوچیں مجھے جب آتی ہیں تو میں واپسی کا راستہ روک لیتی ہوں۔ بندھا سامان دوبارہ کھول کر شوہر سے اپنے نہ کردہ جرم کی معافی مانگ کر دوبارہ روزمرہ زندگی کا سفر شروع کردیتی ہوں۔ اب تو کئی سال ہوگئے ہیں۔ ہم دونوں کے کمرے علیحدہ علیحدہ، سوچیں علیحدہ ،مزاج علیحدہ، زندگی کے دن پورے کررہی ہوں۔ اللہ کے ساتھ اپنا دل لگایا ہے اس کی عبادت میں سکون ملتا ہے۔ رورو کر اللہ کے حضور اپنے ناعقلی، ناسمجھی، معصومیت کے دور کے گناہوں کی معافی مانگتی ہوں۔ میرا رب بے شک دلوں کا حال، نیتوں کو جانتا ہے۔ وہ غفور و رحیم ہے۔ وہ تو بڑے سے بڑا گناہ بھی معاف کردیتا ہے۔ لیکن بندہ بڑا ظالم ہے۔ وہ جب تک زندگی کا آخری سانس بھی آتا ہے اس کو طنز ، ٹوکیں مار مار کر مار دیتا ہے۔ روزانہ آنسو بہا لیتی ہوں کہ شاید میرا کوئی ندامت کا آنسو اللہ کو پسند آجائے اور آخرت اچھی ہوجائے۔میں مائوں کو بھی نصیحت کرنا چاہوںگی کہ وہ اولاد کی تربیت کرتے وقت دینی ودنیاوی دونوں تقاضوںکو پورا کریں۔ دین اسلام نے عورت اور مردکے درمیان جوحدود و قیود رکھی ہیں اولاد کو خاص کر بیٹیوں کو ضرور ان سے آگاہ کریں۔ ناسمجھی اوردین سے لاتعلقی کہیں زندگی بھر کا روگ نہ بن جائے جہاں سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں رہتا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں